Saturday, April 20, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسید محمداشرف صاحب کی ’’آخری سواریاں ‘‘ ایک مطالعہ

سید محمداشرف صاحب کی ’’آخری سواریاں ‘‘ ایک مطالعہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

محسن خان قادری

’’تم جب جب اسے پڑھتے ہو ایک انجان سوچ میں ڈوب کر نڈھال ہو جاتے ہواور پھر تمہیںبخار آجاتا ہے‘‘۔سید محمد اشرف صاحب کی ناول’’آخری سواریاں ‘‘ کے دوسرے پیراگراف کی مذکورہ عبارت پڑھ کر ہی قاری مکمل کتاب جلد از جلد ختم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے ،اس کتاب کی انوکھی خاصیت یہ ہے کہ خواندگی کے چند سطور بعد ہی قاری کسی ایسی عجیب و غیب دنیا میں پہنچ جاتا ہے جسے سر راہ ترک کر دینے کا تصور نہایت اذیت ناک ہے ۔ اس ناول میں مصنف نے اپنے غم و اندوہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈھیروں ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے جو کبھی دل گداز تو کبھی دل خراش منظر نامہ کی عکاسی کرتے ہیں ۔ افسانے کے اہم کرداروں میں سر فہرست جمو ہے جو اصل کردار یعنی چھوٹے میاں کے ننہال سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس ناول کو پڑھنے پرجو اہم چیز محسوس ہوئی وہ یہ کہ خانقاہ برکاتیہ کے قدیم احوال وآثار کو نہایت قریب سے جاننے اور سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے ۔نیز اس کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اصلی و حقیقی واقعات کوکیا ہی سنجیدہ انداز میں افسانوی پیرائے میں ڈھالنے کی لا جواب کوشش کی گئی ہے ۔ سن بلاغت کو پہنچنے پر جب چھوٹے میاں کا بستر الگ کر دیا گیا تو اس کی منظر کشی کرتے ہوئے لکھتے ہیں :ــ دوپہر بعد شام لال باہر سے ایک پلنگ لایا جو جمو کے پاس بچھا دیا گیا ۔اس پر ایک عمدہ بستر لگا جس پر پھولوں والی عمدہ چادر بچھا ئی گئی اور ایک نرم تکیہ اور ریشمی رومال رکھ دیا گیا ۔
اماں نے بلایا : ’’رات کو تم بہت لاتیں چلاتے ہو۔ بہن ابھی چھوٹی ہے اس کو چوٹ لگ جاتی ہے۔تمہارا پلنگ آج سے الگ کر دیا گیا ہے ‘‘۔
’’ جھوٹی ہے جمو ‘‘ ،میں غصہ ہو گیا۔ ’’اگر میں لات چلاتا تو میری لات جمو کو پار کر کے بہن کو کیسے لگ سکتی ہے ۔بتائو!‘‘۔’’ تمہارا بستر سب سے اچھاہے ، دیکھو تو ‘‘۔ پہلے یہ بہن پیدا ہوئی تب آپ نے مجھے اپنے بستر سے نکالا اب اس والے بستر سے بھی نکال رہی ہیں ‘‘۔
’’ارے چھٹو میا ں اب تم بڑے ہو رہے ہو سب کے ساتھ لیٹو گے تو بڑھوار رک جائے گی لمبے نہیں ہو پائو گے ۔ اپنے بستر پر ااکیلے لاتیں چلائو گے تو لاتیں چلانے سے لمبے ہو جائو گے ۔لاتیں کسی کے بدن پر لگیں گی تو تو پوری لاتیں نہیں چل پائے گی اور تم جلدی سے لمبے نہیں ہو پائو گے‘‘۔
’’اس فائدے پر تو میں غور ہی نہیں کیا تھا ۔ اماں بھی مجھے ایک پری کی طرح لگنے لگیں لیکن میرے دل میں ایک شدید کسک تھی کہ جمو نے جھوٹ کیوں بولا کہ میری لاتیں اسے پار کر کے بہن کو لگ جاتی ہیں ‘‘۔
سید محمد اشرف صاحب کی اس ناول میں ماضی قریب کی اسلامی اور گنگا منی تہذیب کی ایسی پر اثر تفصیل ملتی ہے جو مدتوں تک نہ صرف باقی رہ جانے والی ہے بلکہ تاریخ و آثار کی نا قابل فراموش حقیقت بھی تسلیم کی جاتی رہے گی ۔ رقم تراز ہیںانٹرویل میں ہم دونوں چنے مرمرے لیکر نیم کے پیڑ کے نیچے پڑی بینچ پر بیٹھ گئے ۔ (پوست ماسٹر صاحب کی لڑکی ) ’’جنم اشٹمی سے پہلے والی رات میں ہمارے پتا جی بھی تمہارے گھر گئے تھے ۔ کئی دنوں سے چرچہ تھی کہ سوکھا پڑ رہا ہے ۔تو کیا جنم اشٹمی کے دن بھی بارش نہیں ہوگی ۔ بارش نہیں ہو گی تو کشن للا کے پوتڑے کیسے دھلیں گے یہ تو بہت بڑا اپ شگن ہوگا ۔پھر ہمارے گھر میں ایک میٹنگ ہوئی ۔ پنڈت پیارے لال شرما بھی آئے تھے سراج خلیفہ کو بھی بلایا گیا تھا میں نے چائے اور گلوکوزکے بسکٹ کی ٹرے رکھی تھی ۔ سب لوگ دیر تک چرچہ کرتے رہے اور پھر یہ ے کیا گیا کہ سب لوگ مل کر تمہارے پتا جی کے پاس جا کر ونتی کریں کہ صبح سورج نکلنے کے بعد وہ والی نما زپڑھا دیں جس سے بارش ہو تی ہے ۔ پتاجی نے آکر بتایا پہلے تو تمہارے پتا جی اپنی طبیعت کے خرابی کے کارن اس بات پر راضی نہیں تھے لیکن جب سب نے ضد کی کہ سوکھا پڑ رہا ہے ،یہ نماز تبھی تو پڑھی جاتی ہے ۔ تب وہ بولے کہ میری طبیعت خراب ہے ۔میں جنگل تک جانے کے قابل نہیں ہوں ۔ تمہارے چچا نے کہا کہ یکے سے چلے جائیں گے‘‘۔
اس دن صبح ہی صبح ہمارے پتا جی نے گھر کی بھیس کھولی بکری کی رسی مجھے پکڑائی اور ہم لوگ بھی ننگے پائوں جنگل کی طرف چلے۔ قصبہ میں کوئی سڑک ایسی نہیں تھی جس میں لوگ ننگے پاؤں ننگے سراپنے اپنے جانوار لے کرنہ آرہے ہوں ۔بیل بھیس بکری بھیڑیں گھوڑے اونٹ یہاں تک کہ باہر سے منگایا ہو اچھوٹا ہاتھی بھی ہم لوگوں کے ساتھ قصبے سے نکل کر جنگل کی طرف چل رہا تھا ۔
اس دن کے دنگل میں کشتی لڑنے والے سارے پہلوان چاہے وہ سراج خلیفہ کے شاگردہوں یا دیہات کے تھاکر یادوؤں کے لڑکے سب ایک جتھا بنا کر ننگے پیر ننگے سر جنگل کی طرف جا رہے تھے ۔جب ہم جنگل پہنچ گئے تو نماز کی پنکتیاں بنا کر سب کڑے ہو گئے ‘‘۔
بالاستعاب مطالعہ کرنے پر کسی بھی قاری کو یہ احساس ضرور ہوگا کہ اس ناول میں چھوٹے میاں کسی ایسے رنج و غم کے نرغہ میں پس رہے ہیں جس کا بیان کوئی چند حرفوں میں یکسر نہیں کر سکتا ۔ بچپن میں مینا شکار ہو جانے کا رنج ،سن بلوغت میں اچانک جموکا چھوڑ کر چلے جانا ،جوانی میں فن کاروں کی بے قدری اور ان کی قیمتی ہنرمندی کو پامال ہوتے دیکھنا اس کے بعد اپنے دادا سے محصول روزنامچہ و بٹوا کو دیکھ دیکھ کر راز ہائے سر بستہ کی عدم فہمائش پر سینہ پیٹنا اور لٹی پٹی بے آبرو اسلامی ثقافت پڑھ کر سر کے بال نوچنا ، بادشاہ تیمور کے بے نظم و ضبط حکومت کا قصہ اور بہادر شاہ ظفر کی لاغری وضعیفی نیزسسکتی حکومت کا فرنگیوں کے قبضہ میں آجانے کے واقعہ سے مصنف کی افسردگی انتہائی دلکش ہے ۔ لیکن براہ راست ناول میں اس کا تذکرہ نہیں بلکہ قاری کو خود اس کا آحساس ہو جاتا ہے ۔ جب مصنف کی اہلیہ ان سے واضح الفاظ میں دریافت کرنا چاہتی ہیں تو جواب ملتا ہے ’’ہر دن سوچتا ہوں لگتا ہے جیسے ہر روز ایک اور چیز گم ہو جاتی ہے ‘‘۔
اور جب مذکورہ جواب پر مصنف کی اہلیہ واضح ،مثبت جواب کی خواستگار ہوتی ہیں تو مصنف اپنا عندیہ ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں :’’ کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے ۔ لیکن جن باتوں کو سوچ سوچ کر میں بے چین ہو جاتا ہوں انہیں میں خود ہی ٹھیک سے نہیں سمجھ پاتا ہوں تو تمہیں کیا سمجھا پاؤنگا‘‘۔
انہیں غمزوں میں آساں تھا بیا ن مدعا کرنا
ہمیں لفظوں میں مشکل ہے معانی کا ادا کرنا
ٓآخری سواریاں پڑھتے وقت انتہا تک پہنچتے پہنچتے قاری کی حالت بھی قدرے متکلم کی سی ہونے لگتی ہے ۔اختتام کے بعد قاری کی نفسیاتی حالت کچھ مضمحل ہونے لگتی ہے اور وہ ذہن و فکر میں دائمی نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔اس ناو ل کو پڑھنے کے بعد ہربیدار مغز شخص اپنی زندگی کے گزشتہ ادوار کی ورق گردانی کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔عوام وخواص کے درمیان اس کتاب کی مقبولیت کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ناول کے دوسرے کرداروں کی طرح قاری بھی اپنے آپ کو ایک اہم کردار تصور کرنے لگ جاتا ہے جسے کتاب کے ختم ہو نے پر بے چینی ،مفلسی ،اور بے بسی کاشدید اندازہوتا ہے ۔
آخرمیں سید محمد اشرف صاحب رنج و غم کے اسباب و علل پر پر اسرار بیانیہ تحریر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں ’’ میں مسلسل رو رہا تھا اور سڑک کی موڑ کی طرف دیکھے جا رہا تھا ۔بیوی نے اپنے آنچل سے میرے آنسوخشک کئے جو مسلسل بہہ رہے تھے۔آپ کس بات سے ڈر جاتے ہیں آج مجھے سچ سچ بتا دیں، آپ کو میری قسم ۔ اپنی بہتی ہوئی آنکھیں بیوی کے شانے پر رکھ کر میں نے ہچکیوںکے درمیان کمزور آواز میں بتایا : میں رخصت ہو جانے والی سواریوں سے ڈرجا تا ہوں ،بچپن سے اب تک جتنی سواریاں رخصت ہوئیں پھر واپس نہیں آئیں ۔کیا یہ سواریاں بھی لوٹ کر واپس نہیں آئیں گی؟‘‘۔
المختصر ’’آخری سواریاں ‘‘ سید محمد اشرف صاحب کی ایک ایسی راگ ہے جو صدیوں تک الاپی جاتی رہے گی ۔ اور اردوکی مایہ ناز،گراں قدر تصانیف میں برسوں گل سر سبد کی متحمل رہے گی۔بچے اسے پڑھ کر جوان اور جوان اسے پڑھ کر بوڑھے ہوتے رہیں گے۔
البرکات علی گڑھ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular