مولانا اسرارالحق قاسمی:ڈھونڈھوگے ہمیں ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

0
347

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

عبیدالکبیر

رنج وراحت ،خوشی وغمی حیات وممات ایسی اٹل حقیقتیں ہیں جن کا ہم آئے دن مشاہدہ کرتےرہتے ہیں۔بقا اور ثبات صرف اس ذات بے ہمتا کو ہے جو اس کائنات کا خالق ومالک ہے ۔اس ایک ذات کے سوا یہاں جو کچھ ہےان سب کو ایک وقت خاص میں فنا کے گھاٹ اتر جانا ہے ۔ہر نفس اس مرحلے سے گذرتا ہے اور رہ جاتی ہیں تو صرف یادیں ۔یہ سلسلہ ابتدائے آفرینش سے جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا تاہم انسانی تاریخ کی لمبی زنجیر میں کچھ کڑیاں ہمیشہ ایسی رہی ہیں جن کی چمک دمک سے ایک جہان روشن ہے ،جو ٹوٹ کر بھی اپنی کھنک چھوڑتی گئیں ہیں اور ان کی صدائے بازگشت ہمیں ہر طرف سنائی دیتی ہے۔اللہ غریق رحمت کرے ہمارے مولانا اسرارالحق صاحب قاسمی اپنی ہمہ گیر شخصیت کے باعث کچھ ایسے ہی اوصاف کے حامل تھے۔جہد مسلسل سے عبارت آپ کی کتاب زندگی کا ہر ہر ورق درخشاں ہے ۔ایک طرف مولانا جہاں علم وفقہ اور دانش وبینش کا روشن ستارہ تھے تو وہیں دوسری طرف ان کی زندگی زمینی سطح پر بہت زیادہ عملی تھی ۔انھوں نے جو کچھ اکتساب فیض کیا تاعمر اس کو نبھاتے رہے۔بعد والوں کے لیے ان کی زندگی کا یہ پہلو بہت اہم اور لائق التفات ہے۔وہ زمانہ طالب علمی سے ہی انتہائی جفاکش اور لگن والے آدمی تھے ۔مولانا انظر شاہ کشمیری کی وفات کے بعد جامعۃ الامام محمد انور میں ایک تعزیتی نششت میں تقریر کے دوران آپ نےاپنے تعلیمی دور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہمارے وقت میں دارالعلوم میں مضمون نگاری کی مشق کے لیے ستر انجمنیں قائم تھیں جن کی سرپرستی مولانا انظر شاہ صاحب فرماتے تھے ،ہم بہت ذوق وشوق سے مضمون لکھا کرتے تھے ،ایک دفعہ ‘برہان دہلی میں میرا مضمون شائع ہوا تو میں نے خوشی سے اپنے کپڑے پھاڑ لیے”۔میرے خیال میں یہ امر واقعہ کسی کرامت سے کم نہیں ہے کہ مولانا اپنے مالک حقیقی سے ملنے سے بس تین گھنٹے پہلے بھی اسٹیج پر ہی موجود تھے اور اپنی زندگی کی آخری ساعت تک مولانا برابر لوح وقلم کی پرورش کرتے رہے ،ان کے قلم کا آخری شہ پارہ بھی ان کی تدفین سے پہلے پہلے اخبارات میں چھپ چکا تھا۔اس سے موصوف کی مستقل مزاجی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔زندگی کے ہزارہا نشیب وفراز اور تلخ وشیریں تجربات کے باوجود آپ نے کبھی اس تسلسل کو ٹوٹنے نہیں دیا ۔یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ مولانا کی حیات کی طرح ان کی وفات کا سانحہ بھی ایک الگ شان رکھتا ہے،انھوں نے معذور ہوکر میدان عمل کو نہیں چھوڑا ہے بلکہ علم وحکمت کا یہ چراغ سحر ہونے تک ہر رنگ میں جلتا رہا انھوں نے عین میدان کارزار میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔قحط الرجال کے اس دور میں ایسی مثالیں کہاں ملیں گی ،مولانا کی موت ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک روشن تاریخ کا خاتمہ ہے ۔ اس المناک سانحہ پر ہم سب تعزیت کے محتاج ہیں ،آپ کی فرقت کا غم ہم سب کا اپنا غم ہے ۔اللہ نے ان کو جو مقبولیت ،نیک نامی اور محبوبیت عطا کی تھی اس کی وجہ سے ہر کوئی رنجیدہ ہے ۔مولانا کی جدائی کا سنتے ہی نہ جانے یادوں کے کتنے چراغ ایک دم سے روشن ہوگئے ہیں ۔راقم الحروف کو کئی بار آپ سے ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے۔دارالعلوم کے زمانے میں جب بھی مولانا دیوبند تشریف لاتے تو ہم طلبہ ان سے نیاز ضرور حاصل کرتے ۔وہ انتہائی خلیق اور ملنسار آدمی تھے،نخوت اور گھمنڈ نام کو نہیں تھا۔جس سے بھی ملتے انتہائی سپردگی کے ساتھ ملتے ۔ان کی طبیعت میں خوردنوازی کا جوہر بہت نمایاں تھا ،خصوصا دیوبند میں وہ بہت بے تکلفی برتتے تھے ۔مجھے یاد آرہا ہے کہ 2014 میں جب دوسری بار ممبر پارلیامنٹ منتخب کیے جانے کے بعد وہ دیوبند پہنچے تو ہم خدام انجمن دوسرے احباب کے ہمراہ ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔مولانا گاڑی سے اترے ،ان کے ساتھ جو محافظ دستہ تھا اس کا ایک اہلکار مولانا کے ہمراہ چلنے لگا ،ادھر طلبہ مصافحہ کے لیے مولانا کی طرف لپکے جارہے تھے،آپ انتہائی شفقت اور آمادگی کے ساتھ طلبہ کی جانب متوجہ ہوئے اور گارڈ سے کہا” تم آرام کرو یہ دیوبند ہے، یہ میرا گھر ہے ،یہاں مجھے کسی سیکوریٹی کی ضرورت نہیں”۔اللہ نے مرحوم کو خطابت کے جوہر سے بھرپور نوازا تھا ،اپنے مافی الضمیر کو انتہائی مدلل ،دلنشیں اور موثر انداز میں پیش کرنے کا ملکہ آپ کو حاصل تھا۔وہ گھنٹوں اس شان سے بیان کرتے تھے کہ سامعین کو ذرا بھی اکتاہٹ نہ ہوتی۔میں نے پہلی بار ان کو کشن گنج میں مورخہ 5/6 اپریل 2003 کو منعقد جمیعۃ علماء کے جلسے میں سناتھا۔ان دنوں عراق پرامریکی بربریت کا بڑا چرچا تھا ،مولانا نے اجلاس کے دونوں دن خطاب کیا اور جمیعۃ کے ناظم عمومی کی حیثیت سے جب وہ عراقی صدر صدام حسین سے ملے تھے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے عالم اسلام کے ماضی حال اور مستقبل پر بلیغ تقریر کی۔یہی میری ان سے پہلی ملاقات تھی ،پہلی ہی ملاقات میں ان کی عظمت اور بلند اخلاقی کا جو نقش میرے دل ودماغ پر مرتسم ہوا تھا میں نےہمیشہ ان کو ویسا ہی پایا۔اس کے بعد جب کبھی مجھے ان سے ملنے کا اتفاق ہوا ان کے رکھ رکھاو میں وہی دل آویزی اور شگفتگی برابر دیکھنے کو ملی۔
اب ذرا ایک نظر ان باقیات صالحات پر ڈالتے چلیں جو ہمارے لیے صحیح معنوں میں میل کا پتھر ہیں۔اس ضمن میں ان کی زندگی کو ہم مختلف عنوانات کے تحت بیان کر سکتے ہیں ۔علم وتقوی ،سماجی خدمات، ملی وملکی خدمات وغیرہ وغیرہ ۔بلاشبہ ان تمام حوالوں سے آپ کے کارناموں کاذکرکاغذ قلم اور دوات کے سفر کا مستقل موضوع ہے۔سر دست ایک اجمالی جائزہ اور مجموعی طور پر ایک طائرانہ نظر ڈالنی مقصود ہے۔ان کی ہمہ جہت شخصیت کا ہر پہلو سے جائزہ لے کر انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہم خلاصے کے طور پر انھیں ایک فیضیاب اور فیض رساں شخصیت قرار دے سکتے ہیں۔آپ کی شخصیت کے ان دونوں پہلو وں پر بھی دو حیثیتوں سے نظر ڈالی جاسکتی ہے۔اولا یہ کہ آپ نے کیا خدمات انجام دیں ۔ثانیایہ کہ آپ کی ذات سے یہ کارہائے نمایاں حالات کی کن نیرنگیوں میں انجام پائے ۔میرے خیال میں ان کے کام کی صحیح قدر وقیمت کااندازہ کرنے کے لیے اس بنیادی نکتے سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔آپ کی فیضیابی مستند ہے اور فیض رسانی مسلم ۔آپ نے دارالعلوم سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد اپنی عملی زندگی کو فیض رسانی کے لیے وقف کر دیا۔جمیعۃ علما ء کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے آپ کی خدمات اور کارنامے جریدہ عالم پر ثبت ہیں۔بعد ازاں آپ جمیعۃ سے مستعفی ہوئے اور ایک گونہ بے سروسامانی کے ساتھ فیض رسانی کا سلسلہ جاری رکھا ۔یہ دور در اصل آزمائش وابتلا کا دور تھا ،مگر یہ حوصلہ مندی اور دلجمعی ان ہی کا حصہ تھی کہ وہ ان تمام مراحل سے مردانہ وار نبرد آزمائی کرتے ہوئے قومی سطح پر تعلیمی ،رفاہی اور سماجی خدمات کی ایک روشن تاریخ کے ساتھ ملک کے سب سے بڑے ایوان کے رکن منتخب ہوئے ۔ایک قومی پلیٹ فارم سے علیحدگی کے بعد اپنی ایک مستقل شناخت بنانا اپنے آپ میں بہت بڑا چیلنج ہے۔ اپنی تمام تر توانائیاں آپ نے جس میدان میں کھپادیں اور جس مشن کو لے کر وہ اٹھے اس میں تخم ریزی سے لے کر ثمر آوری تک کےتمام مراحل ان کی ذاتی دلچسپیوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔انھوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھویا بلکہ ایک دھارے سے ہٹ کر ایک الگ دھارا بنایا ،روایات سے ہٹ کر عمل وخیال کی نئی طرحیں ڈالیں اور تادم حیات اس کو رواں رکھا ۔اس لحاظ سے اگر دیکھیں تو آپ کے کارنامے ‘کارفرہاد’ کہلانے کے مستحق ہیں۔تعلیمی میدان میں آپ کی ذات اور خدمات بہت نمایاں اور امتیازی شان کی حامل ہیں ۔ملک گیر پیمانے پر انھوں نے تعلیم کا غلغلہ بلند کیا ،مکاتب قائم کیے ،اسکول ،کالجز قائم کیے اور اس با ب ان کی نمایاں خدمت کشن گنج میں مسلم یونیورسٹی کی شاخ کا قیام ہے جس کے لیے ان کی انتھک کوششیں ناقابل فراموش ہیں۔ملک میں جس طرز کی سیاست ہوتی رہی ہے اس میں اقلیتوں کے حقوق کی بازیابی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔مولانا کا تعلق کسی برسر اقتدار اشرافیہ سے نہیں تھا ۔وہ ملک میں اس اقلیت کی نمائندگی کررہے تھے جسے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پسماندگی کی عمیق کھائی میں ڈالا گیا تھا۔ایسی کمیونٹی کے لیے ایسےدگر گوں حالات میں انھوں نے جس روشن مستقبل کی اساس فراہم کی ہے اس کی واقعی قدر قیمت کو تاریخ ضرور یاد رکھے گی۔ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی جن نازک حالات سے جوجھ رہی ہے اس میں قوم کو ان جیسے رہنما کی اشد ضرورت ہے۔وا حسرتا مولانا ہم سے ایسے وقت میں جدا ہوئے جب ہمیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی ۔ان جیسا مخلص ،بے غرض اور عزم وعمل کا پیکر ڈھونڈنے میں زمانے کو زمانہ لگ جائے گا۔6 دسمبرکا دن ایک زخم تازہ کرگیا تھا ابھی اس کی کسک ختم بھی نہیں ہونےپائی تھی ،ابھی تو مرہم پٹی اور چارہ سازی درکار تھی ،ابھی تو تھکے ماندوں نے ٹھیک سے کروٹ بھی نہیں لی تھی کہ صبح ہوتے ہوتے ملت کے کراہتے جسم کو ایک تازہ جراحت سے دوچار ہونا پڑا۔
صبح تک وہ بھی نہ چھوڑی تونے اےبادِ صبا
یادگارِ زینت محفل تھی پروانے کی خاک
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here