علی گڑھ کے درخشاں ستاروں کے ساتھ گُزرے چند لمحات

0
367

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

راشدہ خاتون

’’قاضی عبدالستار : حیات اور کارنامے‘‘ پی ایچ۔ڈی۔ کاموضوع ملتے ہی ذہن میں جو سب سے پہلے خیال آیا وہ قاضی صاحب سے ملنے کا تھا۔ میں نے اپنے استاد محترم پروفیسر علی احمد فاطمی صاحب سے اس خواہش کااظہار کیا تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ اس کے لیے آپ کو صغیرافراہیم صاحب سے بات کرنی ہوگی۔ جو اِس وقت قاضی صاحب پر سب سے زیادہ معتبر اور مستند کام کررہے ہیں اور جن سے قاضی صاحب بے انتہا محبت بھی کرتے ہیں۔ آپ کی اس خواہش کی تکمیل کرانے میں وہ پوری مدد کریں گے۔
غرض کہ میں نے صغیر افراہیم صاحب کا نمبر لیا اور ان کے پاس بے حدجھجکتے ہوئے فون لگادیا۔ جب میں نے قاضی صاحب کے انٹرویو لینے کی خواہش کا اظہار کیا تو انھوں نے مجھ سے پہلا سوال کیا کہ کیا آپ نے حال ہی میں قاضی صاحب پر شائع ہوئے مضامین ،انٹرویو کو پڑھا ہے۔ جوکئی رسالوں کی زینت بن چکے ہیں ۔ بہت کوشش کرنے کے بعد بھی الٰہ آباد میںمجھے وہ رسالے دستیاب نہیں ہوسکے۔ لہٰذا اپنی خواہشوں اور خوابوں کی تکمیل کے لیے علی گڑھ آگئی۔ روایت ہے کہ تہذیب وثقافت کے اس شہر میں آنے والا ہر شخص ایک عجیب سی رچی بسی خوشبو سے متاثر ہوتاہے۔ ایک ایسی خوشبو جو دھیرے دھیرے فضا کو معطر کرکے دور کہیں فضا میں محو ہوتی چلی جارہی ہے۔
۱۴؍اگست کو علی گڑھ کی روایت کے مطابق یومِ آزادی کے موقع پر ایک شعری نشست کا پروگرام ہوتاہے۔ اِس جشن میں اے۔ایم۔یو۔ کے وائس چانسلر صاحب کے ساتھ دورِ حاضر کے ممتاز ادبی شعراء حصہ لیتے ہیں۔ بعد نماز مغرب اس مشاعرے کا آغاز ہونا تھا۔ صغیر صاحب کو جب میں نے فون کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ ادارۂ تہذیب الاخلاق اور مشاعرے کی تیاری میں بہت زیادہ مصروف ہیں۔ باوجود اس کے کہ انھوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ اس مشاعرے میں شرکت کرسکتی ہیں تو وہیں تشریف لائیے۔ بے انتہا مصروفیت کے باوجود صغیر صاحب اپنے وقت مقررہ پر خاص اُستادانہ انداز میں مجھ سے ملے اور رسالہ ،تزئین ادب‘ پیش کیا جس کی میں تلاش میں تھی۔
اس سے پہلے صغیر افراہیم صاحب کودیکھنے کا شرف الٰہ آباد یونیورسٹی میں ہوچکاتھا۔ جن کی وجیہ شخصیت اور چہرے کی ایک خاص ادیبانہ فکر اور تمکنت سے سبھی متاثر ہوتے ہیں۔ کتابی چہرہ، اونچی ناک، چوڑی پیشانی، موٹے لب، ذہانت سے بھری ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھیں جن پر چشمہ چڑھا ہوا، لمبا قد، دُبلا جسم، جامہ زیب شخصیت، فکر انگیز گہری نظریں جن کو دیکھتے ہی اور بات کرنے کا آغاز کرنی سے پہلے ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ ’’جاؤ اور پڑھ کر آؤ‘‘ ۔ یہ ان کی سحر انگیز شخصیت ہی کاجادو ہے کہ طالب علم بھرپور طریقہ سے ان کے چہرے کا جائزہ نہیں لے پاتا ہے نگاہیں خود بہ خود احترام علمیت سے جھک جاتی ہیں۔
صغیر افراہیم صاحب مضامین کو طالب علمی کے زمانے سے ہی Syllabus کے مطابق بہ غور پڑھاتھا۔ لہجہ اتنا موثر کہ تحریر ذہن نشین ہوجاتی۔ پریم چند کاافسانہ ’کفن‘ اور’عیدگاہ‘کے تعلق سے اُن کی نقادانہ بحث نے نئے زاویہ سے سوچنے پر مجبور کیاتھا۔
’’اردو افسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل‘‘ اور ’’افسانوی ادب کی نئی قرات‘‘ ان کی یہ دونوں کتابیں میرے پاس موجود تھیں۔ ’’ایک داستانوی کردار‘‘ کے عنوان سے قاضی صاحب پر ان کا مضمون مجھے بے حد پسندتھا۔ جس کو میں نے بارہا پڑھ کر قاضی عبدالستار صاحب کے فکروفن کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر تحقیق وتنقید کا موضوع بنایا۔
اپنے اساتذہ سے مجھے معلوم ہوا کہ پروفیسر صغیر افراہیم صاحب اور ڈاکٹرسیما صغیر صاحبہ قاضی عبدالستار صاحب پر سب سے زیادہ کام کرتے ہوئے اُن کی کلیات بھی مرتب کررہے ہیں۔ درس گاہِ سرسید میں حاضر ہونے کے اگلے دن یعنی ۱۵؍اگست کو صغیر افراہیم صاحب نے قاضی صاحب سے ملاقات کرانے کے لیے کہا۔ جس شخص کے افسانوں اور ناولوں کو پڑھا ہے ۔ تاریخی ناول کے اسلوب نگارش نے باربارلغت کھولنے پر مجبور کیا ’’تاجم سلطان‘‘ میں بیان کیے گئے نقش ونگار ، قالین پردے اور دیگر لوازمات نے ذہن میں ایک خوبصورت خوابِ شیریں کی منظر کشی کی ہے، اُس شخص کو صرف چند منٹ کے بعد دیکھنا نصیب ہوگا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ صغیر صاحب کاکس طرح سے شکریہ ادا کروں، ملاقات سے پہلے ہی ان کے ملاقات کے وعدے پر جن کی ادبی اور تنظیمی مصروفیات، گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ان کی بیوی کی ناساز طبیعت پھر بھی انھوں نے میرے لیے وقت نکالا۔ جو ظاہر ہے ان کے مشفق ہمدرد استاد اور طالب علموں سے محبت کے پہلوؤں کو ہی بیان کرتاہے۔
۱۴؍اگست کی شعری نشست کے بعد ۱۵؍اگست، یوم آزادی کی صبح۔ اُن کی مصروفیت اس وجہ سے اور بھی بڑھ گئی تھی کہ وہ علی گڑھ کے ایک بڑے ادارہ ’’البرکات پبلک اسکول‘‘ کے اعزازی منیجر ہیں۔ صبح ۹ بجے فلیگ مارچ میں ان کی شرکت لازمی تھی۔ وہیں سے انھوں نے قاضی عبدالستار صاحب سے بات کرکے میرے لیے وقت طے کرلیا تھا۔ بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ یوم آزادی کی تقریب کے فوراً بعد ہی وہ اپنے کسی جاننے والے کی والدہ کے انتقال کے تعلق سے تدفین کے لئے گئے وہیں سے مجھے فون کیاکہ فوراً تیار ہوجائیے۔ قاضی صاحب سے ملاقات کے لیے چلنا ہے۔ میں اولڈ بوائز لاج کے اپنے کمرے سے باہر نکل کر نیچے گیٹ کے پاس پہنچی تو دیکھا کہ صغیر افراہیم صاحب اپنی گاڑی لیے موجود تھے۔
قاضی صاحب سے ان کے دیرینہ تعلقات کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ نہ صرف صغیر صاحب کے استاد ہیں بلکہ ایک باپ کی طرح لائق احترام شخصیت بھی ہیں۔ صغیر صاحب کا بھی یہ بڑکپن ہے کہ وہ برابر کہتے رہے ہیں کہ آج مجھے جو مرتبہ ومقام حاصل ہوا ہے وہ محض خود کی محنت اور جانفشانی کی بدولت نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے قاضی عبدالستار کامشفقانہ ہاتھ بھی ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محض آج نہیں بلکہ اپنے طالب علمی کے زمانے سے ہی صغیر افراہیم سب سے فعال شخصیت مانی جاتی ہے ۔ عصر حاضر میں اُن کے کام اور نام کاچرچا نہ صرف ہندوستان بلکہ غیر ممالک میں بھی ہے۔ صغیر صاحب کے ادبی مقام ومرتبہ کے بارے میں قاضی صاحب سیما صغیر صاحبہ کو دئیے گئے اپنے انٹرویو میں کہتے ہیں :
’’میں نے محسوس کیا کہ ہمارے شاگردوں میں جولوگ افسانہ لکھ رہے ہیں اُن میں سب سے نمایاں نام سید محمداشرف کاتھا تو میں یہ چاہتا تھا کہ صغیر بھی کسی فیلڈ میں سب سے نمایاں ہوں تو میں نے یہ سوچا تھا کہ اُن کے لیے تنقید کامیدان افسانے سے زیادہ مناسب ہے۔ میرا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ افسانہ نہیں لکھ سکتے یاافسانہ نہیں لکھ رہے ہیں۔ میرا مطلب یہ تھاکہ صغیر تنقید کو Prefrence دیں اور میں اس لیے بھی چاہتا تھا کہ وہ تنقید پر بھرپور توجہ دیں کیوں کہ میرے شاگردوں میں کوئی نقاد نہیں تھا تو میں چاہتا تھا کہ مرا کوئی شاگرد نقاد ہو اور وہ صلاحیت میں نے ان میں دیکھی اُن کے جو چھوٹے چھوٹے مضامین شائع ہورہے تھے میں چاہتا تھا کہ وہ مقبول بھی ہوں۔ تو صغیر کو میں نے اکسایا اور ہر طرح سے اُن کو تنقید کی طرف توجہ دلائی اور تنقید لکھوائی مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ انھوں نے بہت اچھے مضامین لکھے ہیں۔
قاضی صاحب کے بارے میں میں نے پڑھ رکھا تھا کہ بہت ٹیڑھے اناپرست اور گھن گرج کے آدمی ہیں اور وہ صرف اُنھیں پسند کرتے ہیں جنھیں وہ پسند کرتے ہیں۔ بہت تیزی کے ساتھ دل میں خدشات اور بدلتے ہوئے تصورات کے ساتھ اولڈبوائز لاج سے قاضی صاحب کے گھر تک کافاصلہ ذہن میں بے شمار خیالات سے گھرا ہوا تھا کہ اچانک پتہ چلا کہ ہم قاضی صاحب کے مکان پر پہنچ چکے ہیں۔ صغیر صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے میں نے کمرے میں قدم رکھا۔ قدم رکھتے ہی ایسا لگا ایک داستانوی دنیامیں داخل ہوچکی ہوں۔ قاضی صاحب میری نظروں کے سامنے تھے۔ وہ اپنے سارے ارادوں کے ساتھ میرے سامنے آتے چلے گئے۔ میں ان کو کچھ دیر تک بغیر پلک جھپکائے دیکھتی چلی گئی۔
قاضی صاحب نے مجھ سے تقریباً ایک گھنٹہ بات کی اور میرے سارے سوالات کا جواب اپنے خاص انداز میں دیا اور انھوں نے اردو اور اردو سے جڑے لوگوں کا ذکرکیا۔ ساتھ ہی انھوں نے بزرگ ادیبوں کے تعلق سے کہا کہ میری تخلیق کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ میں نے جو کچھ لکھا اس پر اعتراض ہی کیاگیا مگر مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے وہ پہلے بھی نہیں کرتے تھے ورنہ ترقی پسند تحریک کے یک رنگی نظریہ اور جدیدیت کی یلغار سے بچ نہیں پاتے۔ انھوں نے اپنے ذہن اور دل کی تخلیقی آواز پر لبیک کہا۔ اور اس دور میں تاریخی ناول لکھے جب سبھی نام نہاد مصنف تاریخی ناولوں میں مسلم قوم کو میٹھی گولی دینے کے بعد اُنھیں میٹھی نیند میں سُلارہے تھے۔
قاضی صاحب نے اپنے ناولوں میں نہ صرف ماضی کی بازیافت کی کوشش کی بلکہ قوموں کے عروج وزوال جس میں سب سے زیادہ اُن کاخود کا ہاتھ ہوتا ہے اس کی آئینہ داری بھی کی۔ دورِ حاضر کے تمام مسائل کی بہترین عکاسی کرتا ہوا اُن کا ناول غالب جو انھوں نے (غالب کی ہی زبان میں ہے) بقول ’’قاضی عبدالستار‘‘ ان تمام مسائل کی عکاسی کرتاہے۔
گفتگو کرنے کے بعد قاضی صاحب نے مجھے موتی چور کے لڈو کھلائے۔ میں نے ان کے بارے میں پڑھاتھا کہ قاضی صاحب کی چائے مشکل ہی سے کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ اُن کے گھر میں مجھے مٹھائی کھانے کو ملی جس کو کھانے کے بعد میں پھولوں نہیں سمارہی تھی۔ قاضی صاحب کے گھر پہنچنے سے پہلے صغیر صاحب نے کہا تھا کہ میں یہاں سے آپ کے لیے رکشہ کرا دوں گا آپ چلی جائیں گی۔ لیکن قاضی صاحب کے گھر سے نکلتے ہی انھوں نے مجھ سے سوال کیا آپ کھانا کہاں کھاتی ہیں، میں نے جواب دیا باہر ہی کھارہی ہوں۔ انھوں نے مجھ سے بے حد خلوص ومحبت سے اپنے گھر چلنے کی دعوت دی۔ میں خود ہی جانا چاہتی تھی کیوں کہ سیما میم کی ناساز طبیعت نے ان کی عیادت کے لیے مجھے بے چین کردیا تھا۔ راستے میں انھوں نے سیما میم کے لیے دوائیں خریدیں جو ظاہر ہے کہ ایک پیار وخدمت گار شوہر جو اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا ہے صاف طور پر عیاں ہورہا تھا۔ دوائیں اور ضروریات زندگی کی ایک دو چیزوں کولینے کے بعد ایک خوبصورت اور دیدہ زیب صاف ستھری رہائش گاہ ’’گل فراہیم‘‘ کے گیٹ پر موجود تھے۔ مشرقی طرز کے اس فکشن ہاؤس میں ہم داخل ہوئے۔
اُن کی بیٹی ثناء فاطمہ نے گیٹ کھولا اور ہم سے مسکراتے ہوئے نہایت محبت بھرے انداز کے ساتھ سلام کیا۔ خوبصورت سا ڈرائنگ روم جودیکھنے میں واقعی کسی بڑے ادیب کا معلوم ہورہا تھا، سلیقے اور خوبصورت انداز سے سجا ہوا تھا۔
سیما میم نماز سے فارغ ہوکر آئیں میں نے ان سے سلام کیا اور ان کی طبیعت کو پوچھا انھوں نے بہت ہی پیار اور شفقت کے ساتھ جواب دیا اور میرے ڈپارٹمنٹ (الٰہ آباد یونیورسٹی) کے احوال دریافت کیے۔
مشفق استاد، محقق، نقاد، مدیر، مترجم اور افسانہ نگار کے گھر جاکر میں نے بہت اپنائیت محسوس کی۔ مجھے کہیں بھی اجنبیت کا ذرا بھی احساس نہیں ہورہا تھا۔ مجھے اُن کی ذاتی لائبریری دیکھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ بے شمار کتابوں اور لاتعداد رسائل کے انبار نے اُن کی اردو کی خدمت اور بے لوث محبت کے ساتھ بے زبان اعزازات اور انعامات کی تختیاں ان کی اس کہانی کو بیان کررہے تھے جن سے ان کا بہت بڑا گھر چھوٹا پڑگیاتھا۔
اردو کی خدمت میں منہمک میاں بیوی جنھوں نے اپنی پوری زندگی ادب کے لیے وقف کررکھی ہے۔ بلکہ اپنی اکلوتی بیٹی کا ذہن بھی اسی جانب راغب کرلیا ہے۔ صغیر صاحب نے سیما میم کی لکھی ہوئی کتاب ’’چند اہم ادیبوں کی نگارشات کا تنقیدی مطالعہ‘‘ پیش کی۔ جس کو پاکر ان کے اس خلوص ومحبت پر بے حد خوش ہورہی تھی۔سیما میم بہت سخت علیل رہی ہیں۔ اب بھی ڈاکٹروں نے اُنھیں مکمل آرام کرنے کو کہا ہے۔ لیکن واہ رے علی گڑھ، تیری تہذیب پر جاں نثار۔ اس کیفیت میں بھی تھوڑی ہی دیر کے بعد کھانا ڈائننگ ٹیبل پر سج گیا۔ اور انھوں نے نہایت ہی محبت کے ساتھ کھانا کھلایا۔ کھانے سے فارغ ہوکر آئس کریم پیش کی گئی۔لیکن صغیر صاحب جن کے لفظ لفظ میں مٹھاس گُھلی ہوئی ہے، وہ میٹھا کھانے سے احتیاط برتتے ہیں۔ ان کی اس محبت اور خلوص بھرے انداز نے، ان کی شائستہ گفتگو نے مجھے احساس دلایا کہ محنت ومحبت سے انسان کانام باقی رہتاہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا کہ پڑھنے لکھنے اور محنت کرنے والوں کی عزت ہوتی ہے، اُن کا نام باقی رہتا ہے ۔وقت بہت گزر چکا تھا ۔ سیما میم کے چہرے سے تکان محسوس ہورہی تھی۔ صغیر صاحب نے میرے لیے رکشے کا انتظام کرادیا۔ اُن کے اس رویہ ، بے پناہ محبت اور ہمدردانہ شفقت نے مجھے سرتاپا ان کا مشکور بنادیا۔
پروفیسر صغیر افراہیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں ایسی فعال اور ہمہ جہت شخصیت کانام ہے جس نے اپنی ذہانت اور علمیت کے سبب اپنی صلاحیتوں سے نہ صرف پریم چند ،کرشن چندر یا افسانوی ادب تک محدود رکھا ہے بلکہ سماجی ، تہذیبی اور سائنسی موضوعات پر اپنی قلم کے ذریعہ ہمیں روشناس کرارہے ہیں جس کا اعتراف ہندوپاک کے ان گنت رسائل وجرائد نے کیاہے۔ پچھلی تین چار دہائیوں سے صغیر افراہیم صاحب کے علمی، ادبی اور سائنسی مضامین ملک وبیرون ملک کے شہرت یافتہ رسائل و جرائد میں نہ صرف شائع ہوتے رہتے ہیں بلکہ ان پر تبصرے اور مضامین بھی چھپتے رہتے ہیں۔ موصوف ماہنامہ رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعہ نئی نسل کو جس طرح سے جدید علوم وفنون کے زیور سے آراستہ کرنے کاجتن کررہے ہیں در اصل وہی بیڑا سرسید احمد خاں نے اٹھارکھا تھاجسے آج کے اس برقی دور میں صغیر افراہیم صاحب انجام دے رہے ہیں۔ اس جریدہ کے توسط سے وہ اپنے شاگردوں اور نئی نسل میں جدید علم سے رغبت پیدا کررہے ہیں اور اُنھیں محبت کے ساتھ انسانیت اخوت ومحبت کی تعلیم کے زیور سے آراستہ کررہے ہیں۔
زندگی کی نہ ختم ہونے والی مصروفیات ، جہد مسلسل اور زندگی کی ’’کڑی دھوپ کا سفر‘‘ کے سامنے زندگی کے تجربات وحادثات کا اندازہ صغیر صاحب کے کاموں کو دیکھ کر لگایاجاسکتا ہے۔ ایک معتبرتنقید نگار کے ساتھ ساتھ صغیر صاحب کانام افسانہ نگار اور ترجمہ نگارکی فہرست میں مقام اکبر میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ غزل اور تنقید، شعراء کی تنقید، تحقیقی مضامین، خاکے، انشائیے، تبصرے، ادبی اور سائنسی ترجمے، ہندی اور بنگالی ادب جس میں ٹیگور کا نام سرفہرست ہے۔پریم چند کااُن کے معاصرین سے تقابلی مطالعہ ان جیسے سینکڑوں مضامین صغیر افراہیم صاحب کی قلم کی زینت بن چکے ہیں۔
قاضی عبدالستار کے متعلق مواد کے سلسلے میں مجھے صغیر افراہیم صاحب نے مولانا آزاد کتب خانہ جانے کی ہدایت کی۔ یہ کتب خانہ ماضی کی سنہری تاریخ سموئے ہوئے بناکسی انا وغرض سے طالب علموں کے روشن مستقل کی رہنمائی کررہا ہے۔ اس لائبریری میں داخل ہوتے ہی یہاں کی علمی وادبی فضا سے انسان معطر ہونے لگتا ہے۔ یہاں کے علمی وتہذیبی ماحول اور لوگوں کی ہمدردانہ مدد کرنے کی عادت ہر طالب علم کو اپنا گرویدہ بنالیتی ہے۔ یہ چند منتشر خیالات اور تصورات ہیں جو میری ٹوٹی پھوٹی قلم اور زبان سے بیان ہوئے ہیں یہ صرف صغیر افراہیم صاحب کی محبتوں اور شفقتوں کے لیے خراج عقیدت کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔
آخری دن صغیر صاحب سے ملاقات کرنے کی غرض سے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے دفتر پہنچی وہاں پر پہنچ کر دیکھا کہ صغیر صاحب کے پاس کاموں کاانبار لگا ہوا ہے کیوں کہ چیرمین صاحب تعطیل پر تھے لہٰذا مستقبل کے چیرمین ہونے کی وجہ سے وہ اس عہدے کے فرائض کو بھی انجام دے رہے تھے۔ کتابوں اور رسالوں کی رجسٹری کرانا، ان کو طے مقام تک پہنچانا، ڈاک، ای میل سے حاصل ہوئے درجنوں مضامین کو پڑھنا اور اس میں بہترین اور اچھے مضامین کو الگ کرنا اور اُنھیں چھاپنا یہ تمام ذمہ داریاں مدیر ہی کے سرہوتی ہیں۔باوجود اس کے صغیر صاحب کے اندر قوتِ برداشت کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جس سے بھی ملتے ہیں خوشی، خوشی ہنستے مسکراتے چہرے کے ساتھ یہ چہرہ نہ صرف اپنوں کے لیے ہوتا ہے بلکہ غیروں سے ملتے وقت بھی خلوص اور اپنائیت کالہجہ ذرا بھی کم نہیں ہوتاہے۔ دفتر کے تمام ملازمین کے ساتھ ان کا رشتہ نہایت ہی مشفقانہ اور ہمدردانہ ہوتاہے۔
’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا دفتر اور شعبہ اردو کی عمارت جو بظاہر آمنے سامنے ہیں مگر دن بھر میں وہ نہ جانے کتنی بار چکر لگاتے ہیں۔ تکان کے باوجود بھی ان کی اپنے کام کے تئیں محنت، لگن اور پابندی کے ساتھ کلاسیں لینے کی عادت یکسوئی سے پڑھانے کی ذمہ داری کو بھی موصوف پوری ایمانداری سے نبھاتے ہیں۔ آپ نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ رسالے کو اپنی بھرپور کوششوں اور انتھک کاوشوں کے ذریعہ جس مقام پر پہنچادیا ہے وہ لائق احترام ہے۔ سرسید کے اس ادارے سے محبت اور بے لوث خدمت کودیکھ کر میں نے بھی ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کی لائف ٹائم ممبر شپ لے لی۔ کیوں کہ میرے اِس عمر سے صغیر افراہیم صاحب کا چہرہ کِھل اُٹھا۔ وہ رسالے و ادارے سے ہی نہیں علمی وادبی کاموں سے دلچسپی لینے والے شاگردوں سے بھی بہت محبت کرتے ہیں اور اُنھیں ایک سرپرست کی طرح ہر ممکن مدد پہنچاتے ہیں ۔
شعبہ اردو، الٰہ آباد یونیورسٹی،الٰہ آباد
موبائل:7052104314
��

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here