مولانا محمد علی جوہر : ایک عبقری شخصیت

0
381

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

داؤد احمد

تیرے آگے لرزہ بر اندام تھی روح فرنگ
اے دل ہندوستاں کے عزم تند و استوار

جب کسی ایسی شخصیت کا تجزیہ کیا جائے جس نے ایک قومی و ملی رہنما کی حیثیت سے اپنی تحریر و تقریر میں عوام کے دلوں کی دھڑکنوں کو سمیٹ لیا ہو ،جس نے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی ہو ،آزادی حاصل کرنے کے لئے زندگی کے عیش و آرام کو ترک کرکے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کی ہوں،یہاں تک کہ پورے اطمینان قلب سے موت کے استقبال کے لئے اپنے کو آمادہ کر لیا ہو ۔ایسا ہی ایک مفکر اور سیاسی رہنما ہندوستان کی تحریک آزادی کے ابتدائی دور میں نظر آتا ہے جسے مولانا محمدعلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
مولانا محمد علی جوہر بیک وقت ایک قوم پرور قائد ،بے باک صحافی،نامور شاعر،شعلہ بیان مقرر،پرجوش سیاست داں اور اولوالعزم مجاہد تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی آزادیٔ حیات،آزادیٔ اظہار،آزادیٔ وطن کے لئے وقف کردی تھی،وہ اپنے وطن کی آزادی کے لئے آخری سانس تک پوری قوت اورعزم واستقلال کے ساتھ مسلسل بر سرپیکار رہے۔ان کی زندگی کا تمام تر مقصد تھا آزادیٔ وطن،استحکام خلافت،ہندو مسلم اتحاد اور کلمتہ الحق کی افضلیت۔یہی وہ واحد سبب تھا جس کی بنا پر مولانا محمد علی جوہر نے ایک غلام ملک میں جینا توبہت دور کی بات رہی،دفن ہونا بھی گوارا نہ کیا۔وہ عہد ساز بھی تھے اور تاریخ ساز بھی ۔ایسے ہمہ اوصاف کسی قوم میں مدتوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔انھوں نے برق رفتاری سے سفر حیات طے کیا ،ٹھہرنا، رکناکجا!سست روی بھی ان کی طبیعت سے کوسوں دور تھی،ہردم لہو کو گرم رکھنا مولانا کی سرشت میں شامل تھا۔اقبال ؔنے جس طرح شاہین صفتی کو ایک مرد قلندر کی صورت میں پیش کیا ہے وہ محمد علی جوہر کی شخصیت کا پر تو ہے۔
آزادیٔ وطن کے متوالے محمدعلی جوہر ۱۰؍دسمبر ۱۸۷۸؁ء کو رام پور میں پیدا ہوئے۔انھوں نے ہندوستان کے باسیوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور احساس دلایا کہ وہ غلامی کی زندگی کو تج دیں۔انگریزوں نے ان کی آزادی سلب کر لی ہے اور یہی ان کی ذلت اور تباہی کا باعث ہے ۔جاگو اٹھو اور اپنے حق کو حاصل کر لو ۔انگریز اگر یہاں رہنا چاہتے ہیں تو رہیں مگر حا کم بن کر نہیں۔حکومت ہمارا حق ہے ۔بندگی اور محکومی کی زندگی میں تمام تر صلاحیتیں ختم ہو جاتی ہیں،خود داریاں دم توڑ دیتی ہیں۔
مولانا محمد علی جوہر نے ہندوستانی سیاست کو ہندو مسلم اتحاد کا بے نظیر تحفہ دیا تھا اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انھوں نے چند دنوں میں پورے ملک کی نفسیات بدل کر رکھ دی تھی ۔خلافت تحریک ،ترک موالات(نان کو آپریشن موومنٹ)اور ان سب کے روح رواںکا نام تھا محمد علی جوہر۔مہاتما گاندھی نے کہا تھا :’’اگر خلافت تحریک نہ ہوتی تو ہندوستان کبھی آزاد نہ ہوا ہوتا۔‘‘ اگر مہاتما گاندھی اس وقت کی سیاست کے دل کی دھڑکن تھے تو مولانا محمد علی جوہراس کی زبان تھے۔وہ نڈر ،بے خوف ،باطل شکن مجاہد ،کبھی نہ لاٹھی گولی سے ڈرے اور نہ قید و بند کی سختیوں سے اس کے پائے ثبات میں لغزش ہوئی ۔اس نے دنیا کو پیغام صداقت دیا کہ ایک سچا مسلمان محب وطن ہوتا ہے۔انھوں نے ہمیشہ اصولوں کی پاسداری کی ،مستقبل کے ہندوستان کا جو تصور ان کے ذہن میں تھا اس میں اتحاد ،اتفاق اور جمہوریت تھی ،انھوں نے کسی موقع پر بھی اپنے موقف سے قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔وہ ایک شاعر کے ساتھ ہی ایک اچھے صحافی بھی تھے ۔انھوں نے ’کامریڈ‘ اور ’ہمدرد‘ نکال کر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں کی جرنلزم کو آگے بڑھایا۔ان کا جرنلزم پروفیشنل نہیں تھا ۔انھوں نے ایک آدرش ،ایک مشن کے لئے جو کام کیا ، ملک کی جو خدمت کی اس کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔
محمد علی جوہر کا تعلق رام پور سے تھا ۔ان کے والد کا نام عبد العلی خاں اور دادا کا نام علی بخش تھا ۔محمد علی جوہر کے چار بھائی اور ایک بہن تھیں۔محمد علی جوہر سب سے چھوٹے تھے،ان سے بڑے شوکت علی تھے ،لیکن یہی دونوں بھائی یعنی محمد علی اور شوکت علی ’’علی برادران‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے اور شہرت پائی۔محمد علی جوہر بچپن میں ہی یتیم ہوگئے۔وہ پونے دو سال کے تھے کہ والد کے سایہ سے محروم ہوگئے۔ان کے والد نے ۳۰،۳۵ ہزار روپے کا قرض چھوڑا تھا ۔ان کی والدہ ماجدہ ۲۷،۲۸ سال کی عمر میں ہی بیوگی سے دوچار ہوئیں لیکن بڑی بلند حوصلہ خاتون تھیں۔جوہر نے خود تحریر کیا ہے :
’’مجھے اپنے والد مرحوم بالکل یاد نہیں،مگر والدہ مرحومہ کو کبھی نہیں بھول سکتا ،میں جو کچھ ہوں اور جو کچھ میرے پاس ہے وہ خدا وند کریم نے مجھے اسی مرحومہ کے ذریعہ سے پہنچایا ہے۔والد مرحوم کی وفات کے دن سے گھر کی بوڑھی ماماؤںکا سا سادہ ا ور سستا لباس پہنا اور ان ہی کی طرح روکھی سوکھی کھا کر گزر کی مگر ہمارا کوئی سوال رد نہیں کیا‘‘
مولانا محمد علی جوہر کو انگریزی زبان پر دسترس حاصل تھی۔انگریز بھی جوہر کی انگریزی کا لوہا مانتے تھے۔زمانۂ طالب علمی میں ’’علی گڑھ منتھلی‘‘ میں انھوں نے ایک مضمون لکھا تھا تو پورے علی گڑھ میں دھوم مچ گئی۔اس وقت علی گڑھ کالج کے مشہور انگریز پرنسپل ماریسنؔ نے محمد علی سے کہا تھا :
’’تم ایک زمانے میں انگریزی کے بے مثل ادیب ہوگے۔‘‘
مشہور اور معتبر انگریزی ادیب ایچ۔جی۔ویلز ان کی قابلیت کے معترف تھے اور کہا تھا :
’’ محمد علی کا دل نیپولین کا دل تھا،اس کا قلم میکالے کا قلم تھا،اس کی زبان برکؔ کی زبان تھی۔‘‘
مولانا محمد علی جوہر ایک روشن ،تابناک اور سنہری تاریخ کا نام ہے ۔جس تاریخ کو محفوظ رکھنا اور آئندہ نسلوں تک پہنچانا ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے ،یہ مقدس امانت ہے جو ہمارے سپرد کی گئی ہے ۔اس امانت کو اگر ہم محفوظ نہ رکھ سکے اور آنے والے ادوار تک نہ پہنچا سکے تو یہ نہ صرف وطن عزیز کے ساتھ احسان نا شناسی کا ارتکاب ہوگا بلکہ دنیائے انسانیت بھی ہمیں معاف نہ کر سکے گی۔مولانا محمد علی جوہر نے دنیا کے سامنے ہندوستان کے تناظر میں آزادی کا تصور پیش کیا اور یہ سمجھایا کہ آزادی وہ بیش بہا دولت ہے جو حیات کو شرف عطا کرتی ہے ،زندگی کو استقلال بخشتی ہے ۔آزادی بحر بیکراں ہے ،ہمیں آزاد فضا میں ہی درس اخلاقیات ملتا ہے ۔آزادی ہی ہمیں باہمی اور دیگر اقوام کے ساتھ رواداری کا سبق سکھاتی ہے ۔آزادی کے معنی ہیں عوام کی آزادی اور اگر عوام آزاد ہیں تو پھر شخصی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
شخصی حکومت اور ملوکیت کے خلاف ان کا جہاد عالم انسانیت کے لئے دوسرا سب سے بڑا تحفہ تھا۔انھوں نے اس پہلو کو بالواسطہ سمجھایاکہ انسانی حقوق کا یہ تقاضا ہے کہ فرد کی حکومت گوارا نہ کی جائے اور کوئی انسان کسی انسان کا غلام نہ ہو ،قانون کی پابندی ہر فرد کے لئے نا گزیر ہو اور کوئی بھی افضل یا دوسرے درجہ کا شہری نہیں ہوسکتا ۔سب کے حقوق یکساں ہونا چاہئے۔جوہر کی تمام تحریروں میں معاشرے کی زبوں حالی اور تقاریر کے ہر مرحلہ میںانسانیت کو کرب و بیچارگی سے نجات دلانے کی آواز گونجتی ہے ،درد مند انسانوں کی فریاد سنائی دیتی ہے ۔یہاں تک کہ زندگی کی آخری سانس تک وہ میرؔ کے اس شعر کی ترجمانی کرتے رہے کہ :
میرے مالک نے مرے حق میں یہ احسان کیا
خاک نا چیز تھا میں ، سو مجھے انسان کیا
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو،فخر الدین علی احمد گورنمنٹ پی۔جی کالج
8423961475

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here